Lyrics

بابا بابا بابا میں اکیلی اندھیرا وہ دشت بلا جل گئے خیمہ کرتا میرا جل گیا پھر میری صمت کو ایک ظالم بارہا میں لرازنے لگی دل دھڑکنے لگا بابا اس نے کانوں سے نوچی میرے بالیاں کان کے خوں سے کرتا میرا تر ہوا اس نے موں پے تماچہ لگایا میرے میں سنبھل نہ ساقی گیر گئی خاک پے پھر میں چلائى رو کے چچا عبّاس شمر مجھے مار رہا ہے میری مدد کو کوئی نہ آیا بابا میں روٹی رہ گئی بابا جان کیا میں کہوں کیا نہ کہوں رنج و علم شام غم حال سفر شام کے زنداں کے ستم اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ بابا جان شمر نے جب بابا جان شمر نے جب مارے تماچے موں پر بالیاں کھيچی میری کرتا ہوا خون میں تر بابا جان دیکھو ذرا بابا جن دیکھو ذرا نیلے ہیں رخسارِ میرے کیا یتیموں پے ستم کرتا ہے یوں کوئی بشر شمر کو دیکھے کے میں خوف سے تھراٹی ہوں بیا سجّاد کے پیچھے ہی میں چپ جاتی ہوں بابا اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ زه شرار غم می سوزم به تمامیه وجود دوباره باید بخونم یکی بود یکی نبود باباجان دردت به جانم بابا جان خوش آمدید به منزل فقیرونه بیا بنشین بشنو درد دل یتیمونه بابا جان خوش آمدید قربان خاک قدمت به خدا دلم می سوخت رفتی سفر ندیدمت وقتی رفتی دشمنا آتیش زدن به خیمه ها برا خاطر چی می زدن کتک به بچه ها باباجان دردت به جانم اپنے غم تم بھی سناؤ پنے غم میں بھی سناؤ بابا جان بازو بندھے بابا جان بازو بندھے سب کے باندھا میرا گلا جب رسن کھیچتی تھی دم گٹھا تھا ہر گام میرا بابا جان میں نے کیا بابا جان میں نے کیا پنج پے چل کر وہ سفر درد ہوتا تھا تو چلاتی تھی بابا، بابا غش میں کھاتی تو زمیں پر نہیں گیر پاتی تھی رسی اس طرح سے گردن میں پھاسی جاتی تھی اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ باباجان دردت به جانم بابا جان بین همه عمه مونو خیلی زدن باباجان منو ببین به صورتم سیلی زدن هر کی صورتم رو دیده می گه چون زهرا شده صورت مادر تو آخه مگر چطور شده باباجان دردت به جانم اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ بابا جان دیکھنا کیا بابا جان دیکھنا کیا سوں بھی نہ پاؤں گے بیاں میرے رخسارِ پے ظالم کی انگھوٹی کے نشاں بابا جان تم بھی مجھے بابا جان تم بھی مجھے اب نہیں پہچانوں گے خاک بالوں میں لہو کانوں سے اب تک ہیں رواں صبر ہر غم پے مگر کیسے کیا مجھ سے سنو تیرا سو میل سفر کیسے کیا مجھ سے سنو اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ باباجان دردت به جانم بابا جان داداش علی رو به کجا بردی بابا ؟ بچه ها می گن انو پیچه خدا بردی بابا بابا جان به مان بگو برساره تو چی آماده داداشم علی اکبر بر چی نیومده من نمی فهمم بابا بعضی ها با هم چی می گن همه بهم می گن یتیم بابا یتیم به کی می گن ؟ مگه هر کی که باباش رفته سفر یتیم می شه یا یتیم اونه که تو خرابه ای مقیم می شه بابا جان دردت به جانم اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ بابا جان تم کو نہیں بابا جن تم کو نہیں کیا میرے زخموں کی خبر اب مجھے لوگ بلاتے ہیں یتیمہ کہہ کر بابا جان آج تلک بابا جان آج تلک میں یہ سمجھ پائی نہیں باپ کا جانہ یتیمی یا اسیری ہے پدر لوگ مجھ سے یہی کہتے ہیں کے تو مانگ دعا اب کیسی کو بھی یتیمی نہ میلے تیری طرح اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ بابا جان دردت به جانم اینجا با زخم زبان اینجا با زخم زبان آتیش به دلها می زنن اینجا رسمشون بده بچه یتیم و می زنن زه شرار غم می سوزم به تمامیه وجود دوباره باید بخونم یکی بود یکی نبود بابا جان دردت به جانم اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ بابا جان آپ کا سر بابا جان آپ کا سر جب مجھے زنداں میں ملا خود کو نہ روک ساقی ضبط میرا ٹوٹ گیا بابا جان دور ہوئی بابا جن دور ہوئی اب میرے صدموں کی تھکن آگئے آپ بس اب چین سے آئے گی قضا بس یہیں ختم ہوئی مظہر و فرحان بکا لے چلو ساتھ مجھے بالی سکینہ نے کہا اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ اپنے غم تم بھی سناؤ اپنے غم میں بھی سناؤ بابا!!!!!
Lyrics powered by www.musixmatch.com
instagramSharePathic_arrow_out